!...مَوابراہیم مایوس نہیں
تحریر:سنجئہ نجار
شعبہ بین الاقوامی تعلقات، وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی
مو ابراہیم سوڈان میں پیدا ہونے والا برطانوی ارب پتی اور ٹیلیکام انڈسٹری کا ٹائیکُون ہے، جس نے افریقی ممالک کو آپس میں ملانے والی سیل ٹیل کمپنی کا بنیاد ڈالا، بعد میں اُس نے وہ کمپنی انڈیا کے ایئرٹیل کو بیچ دی تھی۔ اکثر ارب پتیوں کی طرح مَو ابراہیم کی بھی فلاحی کاموں کےلیے ایک فائونڈیشن بنی ہوئی ہے، جس نے 2007 میں دنیا کے سب سے بڑی رقم والے انعام کا اعلان کیا تھا، یہ انعام افریقہ میں بہترین لیڈرشپ کا کردار دا کرنے والے افریقی ممالک کے ریٹائرڈ سربراہان کےلیے ہے۔
اِس ایوارڈ کے شروعات کا پسمنظر دراصل دہائیوں تک پھیلی افریقی ممالک کی وہ بدترین حکمرانی تھی، جس نے براعظم افریقہ کی عوام کو بُوکھ، بدحالی، خانہ جنگی، غربت اور بیماریوں میں جکڑ رکھا تھا۔ براعظم افریقہ کے اکثر ممالک نے دنیا میں سب سے زیادہ لمبے عرصے تک حکومت کرنے والے حکمران دیکھے ہیں، سراسر طور پہ یہاں ایک ایک حکمران نے تین دہائیوں تک حکمرانی کی ہے، یہ ملک سیاسی انتشار، خانہ جنگی، آمرانہ طرز حکمرانی اور بدترین کرپشن کا شکار رہے ہیں، جہاں پہ کسی باصلاحیت اور کمیٹیڈ سیاسی رہنما کا اُبھرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا، لیکن مَو ابراہیم کو یہ یقین تھا کہ افریقہ کی مٹی لیڈرشپ کے بحران کا شکار نہیں ہے، یہاں پہ اب بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو نسلوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں اور ممالک کو بحرانوں سے باہر نکال سکتے ہیں۔ مَو ابراہیم نے گُڈ گورننس، قانون کی حکمرانی اور بہترین قیادت کا پرچار کرنا شروع کیا اور آخرکار اُس نے 2007 میں مو ابراہیم فاؤنڈیشن کی طرف سے افریقہ کے سابق رہنماؤں کے لیے انعام کا اعلان کیا۔ یہ انعام رقم کے حوالے سے نوبل انعام سے بھی بڑا ہے، نوبل انعام کی رقم تقریبا 13 لاکھ ڈالر ہوتی ہے پر مو ابراہیم انعام کی رقم شروعات میں 50 لاکھ امریکی ڈالر اور پھر 2 لاکھ امریکی ڈالر انعام حاصل کرنے والے کو تاحیات ملتے رہیں گے۔ لیکن نوبل انعام اور مو ابراہیم انعام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نوبل انعام کا دائرہ پوری دنیا میں وسیع ہے جبکہ مو ابراہیم کے انعام کا دائرہ صرف افریقی ممالک تک محدود ہے۔ نوبل انعام کے حوالے سے اکثر تکرار سامنے آتے رہتے ہیں لیکن مو ابراہیم انعام کے حوالے سے آج تک کوئی تکرار سامنے نہیں آیا، بلکہ ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ 2007 سے لے کر آج تک 16 سالوں میں صرف 7 افریقی رہنما اس انعام کے حقدار بنے ہیں، اُس کا ایک سبب اِس انعام کے سخت معیارات ہیں، جس کے مطابق ایک تو انعام حاصل کرنے والے کو عہدہ چھوڑے ہوۓ تین سال ہو چکے ہوں، وہ جمہوری طور سے منتخب ہو، اپنی آئینی میعاد پوری کی ہو اور اسی دوران اس نے اپنے ملک اور عوام کے لیے غیرمعمولی کارنامے سرانجام دیے ہوں اور جس کا فائدہ مجموعی طور پہ ملک اور عوام کو پہنچا ہو، اس کو اوپر کسی قسم کی کوئی کرپشن، اقرباپروڑی، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہ ہو اور اپنی میعاد پوری ہونے پہ اُس نے پرامن طور پہ اقتدر دوسروں کے حوالے کیا ہو۔ پہلا انعام 2007 میں موزمبیق کے سابق صدر جوقم چیسانو کو دیا گیا، جس نے 80 کی دہائی میں ملک کو موتمار قحط اور خانہ جنگی سے باہر نکالا تھا، ملک میں اسکولز اور ہسپتالیں قائم کیں اور معیشیت کو اپنے پیروں پہ کھڑا کیا۔ 2004 میں اِس نے صدارت چھوڑنے کا اعلان کیا، حالانکہ آئینی طور پہ وہ تیسری مرتبہ بھی صدر بن سکتا تھا لیکن اس نے کہا کہ اب نیا خون آ کر اداروں کو مضبوط کرے۔ افریقی ممالک کے اکثر حکمرانوں میں پتہ نہیں کونسی بنیادی خرابی ہے جو وہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سوا رہ نہیں سکتے اور اس کے علاوہ اِن میں لمبے عرصے تک اقتدار میں رہنے کی خواہش شدید ہوتی ہے اور دولت کی نمائش کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔ افریقی ممالک کے رہنماؤں نے جس بیدردی سے ملکی خزانے کو لوٹا ہے، اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ معدنی وسائل سے مالامال یہ ملک اگر کسی باصلاحیت اور ایماندار قیادت کی ہاتھ میں ہو نا تو آج براعظم افریقہ دنیا میں ایک رہنما کا کردار ادا کر رہا ہوتا لیکن بدقسمتی سے اکواٹوریل نیو گنی کے فرانسسکو نیما سے لے کر نائیجیریا کے جنرل سانی اور زمبابوی کے رابرٹ موگابی تک ان کو ایسے لیڈر ملے ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے ملکی خزانے کو لُوٹ کر تباہ و بربا کردیا ہے۔ فرانسسکو نیما نے تو حد کردی تھی کہ اُس نے اپنی لوٹی ہوئی دولت اپنے گھر کے سہن والے باغ میں چھپا دی تھی لیکن اس نے اسے واٹر پروف نہیں بنایا تھا اِس لیے اُس کی دولت کا بڑا حصہ ضائع ہوگیا۔ رابرٹ موگابی نے تین دہائیوں تک زمبابوی پہ راج کیا لیکن ہاں وہ اتنا ضرور ہوشیار تھا کہ وہ جب بھی باہر کہیں دورے پہ جاتا تھا تو اپنے ساتھ پیسوں سے بھڑا ایک بریف کیس ضرور رکھتا تھا، جسے وہ (Coup Money) کہتا تھا، اُسے ڈر تھا کہ اگر کہیں وہ باہر کسی ملک کے دورے پہ ہو اور پیچھے اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا کاۓ تو کم سے کم اُس کے پاس اتنے تو پئسے ہوں جو وہ باہر کہیں پناہ لے سکے۔ اگر دیکھا جاۓ تو مو ابراہیم کا انعام کسی فرد کے لیے انتہائی پرکشش ہے، جو اُسے پوری عمر اور کوئی کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، پر اس کے باوجود اکثر افریقی ممالک کے رہنماؤں کے لیے یہ انعامی رقم اتنی کشش کی باعث نہیں جتنا ان کے لیے اقتدار میں رہنا، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا اور ملکی خزانے کو لوٹنا ہے۔
یہ طاقت اور اختیارات کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے جس کے خمار کسی بھی سرحد اور رنگ و نسل کے محتاج نہیں ہوتے، وہ براعظم افریقہ ہو یا یورپ یا ایشیا کے ممالک پر طاقت کا نشہ حکمرانوں کو یکسان سرُور دیتا ہے اور اسی سرُور میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے گُڈ گورننس، اپنے لوگوں اور اپنے ملک سے وفاداری، ملک کو بحرانوں سے نجات دلانے، اداروں کو مضبوط کرنے اور ترقی کے نئے راستے ڈھونڈنے کی ہمت۔ جب دنیا کے سامنے پاناما پیپرز کا اسکینڈل آیا تھا تب کتنے ہی ایسے چہرے بے نقاب ہوۓ تھے جنہوں نے افریقی رہنماؤں کی طرح اپنے ملک کی دولت کو لوٹ کر انتہائی نفاست اور چالاکی سے آف شور کمپنیز کے لباس میں سمیٹ کر رکھا۔ وہ اربوں ڈالرز اُن ممالک کے عوام کی قسمت بدل سکتے تھے لیکن ان حکمرانوں نے صرف اپنے خاندانی نسل کی تقدیر بدلنے کا سوچا۔ کسی بھی خطے کا غربت، پسماندگی اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کا سبب نہ تو قحط، سیلاب اور قدرتی آفتیں ہوتی ہیں بلکہ اقتدار پہ قبضے کی وہ جنگ ہوتی ہے جس کا محور فقط ذاتی اور گروہی مفاد ہوتے ہیں اور پھر اقتدار کے ساتھ طاقت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں تب کرپشن اور لوٹ مار کی وہ داستان رقم ہوتی ہے کہ جس کے بعد عام عوام کے بنیادی انسانی حقوق، اُن کے فلاح و بہبود اور ترقی کے تصورات بے معنیٰ رہ جاتے ہیں۔ اِس ملک پہ بھی حکمرانی کرنے والے حکمرانوں کی تاریخ کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ اِس ملک کا آپ کو کوئی ایسا حکمران نہیں ملے گا جو امریکی صدر ہیری ٹرومین کی طرح صدارت کے بعد صرف پینشن پہ گذارا کرتا ہو یا پھر یوراگوئی کے سابق صدر جوز موجیکا کی طرح اپنے پاس رہنے کے لیے ذاتی گھر بھی نہ ہو اور وہ اپنی 12 ہزار ڈالر کی پینشن کا 90 فیصد غریبوں میں تقسیم کر دیتا ہو۔ پر اس کے بجاۓ اِس ملک کے حکمرانوں کے محل، وسیع جائیدادوں اور ملکیتوں کو دیکھ کر آپ کو اِس ملک کے قرضی ہونے اور اِس ملک کی عوام کے غریب ہونے کا سبب آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اِس کے باوجود مو ابراہیم ابھی بھی مایوس نہیں ہے، اُسے امید ہے کہ افریقی ملکوں میں ایماندار اور باصلاحیت قیادت آخرکار اس پورے براعظم افریقہ کی قسمت بدلاۓ گی، اور جن کے لیے مو ابراہیم فاؤنڈیشن کا انعام کسی لالچ نہیں بلکہ ان کی خدمات کا ایک نذرانہ ہوگا لیکن ایسی خواہش ایشیا کے ممالک اور خاص طور پہ ہماری قیادت سے کتنی قدر رکھ سکتے ہیں، اِس کا پتہ نہیں